Sunday, April 20, 2014

قلم کا مستقبل ؟

کمپیوٹر، موبائل فون اور دیگر ایسی ایجادات کے وجود میں آنے  نیز ان آلات کے  ذاتی و دفتری زندگی میں سرایت کر جانے کے باعث یہ خیال ذہن میں آنے لگا ہے کہ کیا مستقبل میں قلم، ہاتھ سے لکھنا اور خوش خطی جیسے آلات و مشاغل مفقود و متروک ہو کر محض عجائب گھر کی زینت یا دادا جان کے دقیانوسی افسانوں کا موضوع بن کر رہ جائیں گے- میں ہر گز ان ایجادات کا مخالف نہیں کیونکہ خود فدوی کا روز گار بھی انہی برقی ، مواصلاتی اور حساباتی کھلونوں اور ان پر رواں دواں پروگراموں پر ہی منحصر ہے لیکن ایک تو دانشور نما فلسفی پروفیسر نظر آنے کی خواہش اور دوسرے کوئی توشۂ فکر یاروں کو فراہم کرنے کا خودساختہ فریضہ نبھانے کی آرزو، بندے کو اس قسم کے موضوعات اٹھانے پر مجبور کیے رکھتی ہے- لیکن اگر ان پیچیدہ نفسیاتی محرکات سے ہٹ کر بھی سوچا جائے تو شاید یہ سوچ اتنی غلط بھی نہ ھو اورعین ممکن ہے کہ اگلے بیس تیس سالوں میں قلم اور لکھائی واقعی قصّہ پارینہ بن جائے- املا اور گرائمر کی غلطیاں بھی یہ کمپیوٹر خود ہی دور کر دیتا ہے-گگلو بھیا ہر لفظ کی اصلاح کر دیتے ہیں اور یہی نہیں اس سے متعلقہ معلومات و معانی کا ایک خزانہ بھی پیش کر دیتے ہیں- اور تو اور سری نام کی ایک دیوی جی تو آپ کا بولا ہوا بھی کمپیوٹرپہ فرفر لکھ ڈالتی ہیں- سہولت تو بہت بڑی ہے لیکن کیا قلم و قلم کاری واقعی خطرے میں ہیں؟
اور تو کچھ نہیں البتہ خود یہ تحریر اس بات کی غمّاز ہے کہ بغیر قلم و قرطاس کے بھی با آسانی کچھ لکھا، پڑھا اور ان گنت لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے- کیا ہاتھ سے لکھے بغیر ہم زبان و بیان درست طریقے پر سیکھ سکتے ہیں؟ یقیناً یہ نطق و زبان کے ماہرین کے لئے ایک دلچسپ موضوع بحث ہو سکتا ہے- ممکن ہے نکتہ دان ھاۓ زبان و بیاں اس پر عرق ریزی کر چکے ہوں- اگر کوئی دوست ایسی کسی کاوش سے واقف ہو تو ضرور ہم سب کے علم میں اضافہ کرے- میں توفی الحال یہی کہوں گا کہ قلم ، قرطاس اور کتاب سے ناطہ جڑا رہے- اظہار کا ذریعہ کچھ بھی اپنایں ہاتھ سے قلم تھامنے اور بیاض پر خیالات رقم کرنے کا معمول کبھی نہ کبھی ضرور کر لیا کریں، علم و بیان کے فطری و روحانی ماخذ سے ایک معصومانہ رشتہ بندھا رہے گا!


No comments:

Post a Comment