Thursday, October 1, 2015

آج جانے کی ضد نہ کرو


حبیب ولی محمّد (مرحوم ) ، گیت غزل کے میٹھے اور دھیمے گلو کار- آپ پیشہ ور گائک تو نہ تھے مگر سنجیدہ اور با قاعدہ تربیت یافتہ گلو کار تھے - بلکہ اگر یہ کہا جاۓ کہ بیشتر پیشہ ور گلو کاروں سے بہت بہترتھے تو غلط نہ ہو گا - آواز خدا داد تھی جس پہ تربیت و ریاض سے سلجھاؤ اور نکھار پیدا ہو گیا تھا - اس تحریر کا مقصد محض حبیب ولی صاحب کے حالات زندگی رقم کرنا نہیں بلکہ اس عہد کا نوحہ لکھنا مقصود ہے جو اب تقریباً بیت چکا - وہ لوگ جو گزشتہ صدی کی دوسری، تیسری اور چوتھی دہائی (١٩٢٠ تا ١٩٤٩)  میں پیدا ہوے تھے ، اب اس جہانِ فانی میں گویا نایاب ہیں -
 زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے 
میں جس پیڑھی کا ذکر کر رہا ہوں یہ میرے والدین اور ان کے ہم عصروں کی پیڑھی ہے (یا تھی)-  یہ لوگ عمر میں ملکِ پاکستان سے عموماً بڑے یا چند ہی سال چھوٹے تھے - اس دور کے نمایاں لوگوں میں سے اکثر اب اس دنیا میں نہیں ھیں - کچھ چیدہ چیدہ افراد جو ذہن میں آ رہے ہیں ان میں محمّد علی ، مہدی حسن ، معین اختر ، احمد فراز ،عبید اللہ بیگ ، قریش پور، اشفاق احمد ، ڈاکٹر اسرار احمد ، محمّد خان جونیجو، فاروق لغاری ، غلام اسحاق خان ، حمید گل ، نصیر اللہ بابر اور بہت سے ایسے نام - ضیاءالحق اور ذوالفقارعلی بھٹو بھی در اصل اسی نسل کے نمایندہ تھے- زندوں میں ضیاء محی الدین، ندیم بیگ ، افتخار عارف، غازی صلاح الدین،بانو قدسیہ ، اسلم بیگ اور دیگر حضرات کے نام ذہن میں ابھرتے ہیں - یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ستر تا نوے کی دہائیوں میں اپنے عروج و کمال کے جوہر دکھائے - یوں لگتا ہے کہ جیسے ایک پرانی نسل اگلی نسل کے لئے میدان خالی کر رہی ہے- وقت آ رہا ہے کہ میں اور میرے ہم عصر کچھ کر دکھائیں اور لوح ایام میں اپنے بناۓ نقوش ثبت کر چھوڑیں، کیونکہ ظالم وقت جلد ہی بساطِ کار پاؤں تلے سے کھینچنے والا ہے - ہمارے نوحے بھی جلد ہی لکھے جانے  والے ہیں لہٰذا کچھ عمل ،کچھ سوچ اور کچھ جہدِ خاص درکار ہے - گو کہ پاکستان کے معارضِ وجود میں آنے کے فوری بعد کی پیڑھی اس وقت عنانِ کار سنبھالے هوئے ہے لیکن اپنا وقت بھی گویا آ ہی چکا ہے -
خیر بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں جا پہنچی - ذکر ہو رہا تھا ان لوگوں کا جن کے ہاتھوں میں ہم پل بڑھ کے یہاں تک پہنچے - ان لوگوں کا ایک اپنا رکھ رکھاؤ ، طور طریقہ تھا - یہ لوگ زندگی، کام اور پیشہ ورانہ امور میں انتہائی سنجیدہ اور محنتی تھے -ان میں سے اکثر منہ میں چاندی کا چمچ لے کے پیدا نہیں هوئے تھے بلکہ بہت روکھی پھیکی اور جاں فشاں جد و جہد کے بعد کسی مقام تک پہنچے تھے- شاید ملکی سطح پر جہاں ہم پاکستان کو دیکھنا چاہتے ہیں ، یہ لوگ وہاں تک تو اسے نہ پہنچا سکے لیکن کم از کم اپنے آنے والوں کو اس قابل ضرور کر گئے کہ وہ اس ملک کی حالت بدل سکیں - مالی بدیانتی کا مرض ان لوگوں میں موجود ضرور تھا لیکن اس شدت ، کمال اور عموم کے ساتھ نہیں جتنا کہ ان سے فوری بعد آنے والوں میں پایا گیا - 
یہ سب باتیں ایک طرف ، حقیقت یہ ہے کہ بزرگوں کا چلے جانا جہاں خود کے بڑے ہو جانے کا عندیہ ہے وھیں چھتنار چھاؤں سے نکل کر تیز چمکتی دھوپ میں آ کھڑے ہونے کا سندیسہ بھی ہے - یہ سندیسہ یہ پیغام عمر کے ایک سخت عہد کے آغاز کا پروانہ ہے - ہونی ہو کے رہتی ہے اور وقت اپنا پہیہ گھما  کے چھوڑتا ہے لیکن دلِ مضطر جب والدین ، بزرگوں اور اکابر کے رخصت ہونے پہ ملول ہوتا ہے تو بے اختیار یہی کہہ اٹھتا ہے ......... آج جانے کی ضد نہ کرو!

1 comment:

  1. urdubazarlhr.com is developed to fill the present increasing demand of books, stationary, copies and other related items. We provide the products of Urdu Bazar Lahore at your door step. These products are provided on market rates with in working days.
    http://www.urdubazarlhr.com/

    ReplyDelete